امام حسین(ع) نے جناب علی اکبر کے حق میں دعا کرتے ہوئے فرمایا: خدا باپ کی طرف سے اپنے بیٹے کو بہترین اجر عطا فرمائے

امام حسین علیہ السلام کی گواہی اور تائید کے مطابق جناب علی اکبر تمام ظاہری اور باطنی صفات میں رسول اللہ کی شبیہ تھے۔ اسی بنا پر آپ شبیہ پیغمبر کے نام سے بھی مشہور تھے۔

اصفہانی اور ابی مخنف نے حضرت علی اکبر کو کربلا میں بنی ہاشم کا پہلا شہید لکھا ہے۔ نیز شہداء کے معروف زیارت نامے میں بھی یہی آیا ہے: السَّلامُ علیکَ یا اوّل قتیل مِن نَسل خَیْر سلیل.

بنی مقاتل کے مقام پر حضرت امام حسین کی آنکھ لگ گئی۔ کچھ دیر بعد آنکھ کھلی تو آپ انّا لله و انّا الیه راجعون و الحمد لله ربّ العالمین کی تکرار کرتے ہوئے بیدار ہوئے تو حضرت علی اکبر نے اس کا سبب دریافت کیا تو امام نے جواب میں ارشاد فرمایا:

اے بیٹے! مجھے اونگھ آ گئی تو میں نے ایک سوار کی صدا سنی وہ کہہ رہا تھا: یہ قوم سفر کر رہی ہے اور موت ان کے پیچھے پیچھے ہے۔ اس کی اس بات سے میں سمجھ گیا کہ موت ہمیں پا لے گی۔ علی اکبر نے سوال کیا: اللہ آپ کو ہر بدی سے بچائے! کیا ہم حق پر نہیں ہیں؟ امام نے جواب دیا: حق اسی کے ساتھ ہے جس کی طرف سب بندگان خدا کو جانا ہے۔ علی اکبر نے کہا: جب حق پر قائم ہیں تو ہمیں موت سے کوئی باک نہیں ہے۔ امام نے یہ جواب سن کر علی اکبر کے حق میں دعا کرتے ہوئے فرمایا: خدا وند کریم باپ کی طرف سے اپنے بیٹے کو بہترین اجر عطا فرمائے۔

جناب علی‌ اکبر نے عاشورا کے دن بنی‌ ہاشم کے جوانوں میں سب سے پہلے آکر امام حسین (ع) سے میدان میں جانے کی اجازت مانگی۔ اجازت ملنے کے بعد جب علی اکبر میدان کی طرف جا رہے تھے تو اس موقع پر امام حسین (ع) نے فرمایا:

اَللهمَّ اشْهَدْ عَلَی هؤُلاءِ القوم، فَقَدْ بَرَزَ اِلَیهِمْ اَشْبَهُ النّاسِ بِرَسولِک مُحمّد خَلْقاً وَ خُلْقاً و مَنْطِقاً

پروردگارا! میں تجھے اس قوم پر گواہ بنا رہا ہوں ان کے مقابلے میں ایک ایسا شخص جا رہا ہے جو تمام انسانوں میں ظاہری شکل و شمائل اور باطنی اخلاقی صفات میں تیرے رسول سے سب سے زیادہ مشابہت رکھتا ہے۔

نیز فرمایا:

وَ کنّا اِذا اشْتَقْنا اِلی رُؤیةِ نَبِیک نَظَرْنا اِلیهِ

جب بھی ہم تیرے رسول کے دیدار کے مشتاق ہوتے تھے تو ہم علی کی طرف نگاہ کرتے تھے۔

عمر بن سعد نے علی اکبر کو میدان کارزار میں دیکھ کر آپ سے میدان سے چلے جانے اور آپ کو امان دینے کی بات کی تو اس وقت علی اکبر نے ان کے امان نامے کو ٹھکرا کر یوں رجز پڑھا:

میں علی کے بیٹے حسین کا فرزند ہوں؛ بیت اللہ کی قسم! ہم نبی سے زیادہ قرابتداری کا حق رکھتے ہیں۔

خدا کی قسم! یہ زنا زادہ! ہم پر حکم نہیں چلا سکتا؛ میں تلوار سے دشمن پر کاری ضرب لگاؤں گا اور اپنے باپ کی حمایت کروں گا۔

وہ بھی ایک ہاشمی اور قریشی جوان کی تلوار سے۔

ہلے حملے میں حضرت علی اکبر کبھی دائیں، بائیں اور کبھی قلب لشکر پر حملے کرتے تھے۔ کوئی گروہ بھی ان کے حملے کی تاب نہ لا سکتا تھا۔ کہتے ہیں اس حملے میں 120 افراد کو زمیں پر گرایا لیکن پیاس کی وجہ سے مزید حملے کی سکت نہ رہی۔ تو نئی توانائی حاصل کرنے کیلئے امام کی طرف لوٹ آئے اور اپنی پیاس سے اپنے والد کو آگاہ کیا۔

جناب علی اکبر کی پیاس کو دیکھ کر امام کے آنسو نکل آئے آپ نے اپنی زبان چوسائی پھر اپنی انگوٹھی علی اکبر کو دی اور کہا اسے اپنے منہ میں رکھ لیں، امید ہے کہ تم اپنے جد سے جلد ہی ملاقات کرو گے وہ تمہیں آب کوثر سے سیراب کریں گے کہ جس کے بعد کبھی تشنگی نہ ہو گی۔ کچھ اختلاف کے ساتھ یہی عبارت سید بن طاووس نے بھی نقل کی ہے۔

علی اکبر دوبارہ حملے کیلئے روانہ ہوئے، آپ کی شجاعت ایسی تھی کہ کوفہ کا کوئی فرد بھی آپ سے مقابلہ کرنے پر راضی نہیں تھا۔ یوں آپ نے تقریبا اہل کوفہ کے 200 افراد پچھاڑے۔

شہادت

جناب علی اکبر اس بہادری سے حملے کر رہے تھے اچانک مُرّةُ بن مُنقذ کی نگاہ حضرت علی اکبر پر پڑی تو اس نے آپ کو دیکھتے ہی کہا: اہل عرب کے تمام گناہ میری گردن پر، اگر میں اس کے باپ کو اس کے غم میں نہ بٹھا دوں۔ اس نے اچانک آپ کے فرق مبارک پر وار کیا کہ آپ اس کی تاب نہ لا سکے اسی اثنا میں دشمن کے دوسرے سپاہی بھی آپ پر حملہ ور ہوئے۔ لشکر نے ہر طرف سے آپ پر وار کرنا شروع کئے، اتنے میں علی اکبر کی فریاد بلند ہوئی: اے بابا! آپ پر میرا سلام ہو! یہ رسول خدا ہیں جنہوں نے مجھے جام کوثر سے سیراب کیا اور مجھے اپنی طرف جلدی بلایا ہے۔ یہ کہنے کے بعد علی اکبر نے ایک لمبی سانس لی اور اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔

آپ کی شہادت کے طریقے کے بارے میں دوسری روایات بھی موجود ہیں جن کی بنا پر آپ کی شہادت، سینے میں برچھی کے پیوست ہونے سے ہوئی ہے.

امام حسین اپنے بیٹے کے پاس پہنچے وَ اَنکبَ علیهِ و اَصفا خَدَّهُ عَلی خَدِّهِ ترجمہ: آپ نے اپنے آپ کو بیٹے پر گرا دیا اور اپنے رخسار بیٹے کے رخسار پر رکھ دیئے۔ امام نے قوم اشقیا کے حق میں یوں بد دعا کی: اللہ اس قوم کو قتل کرے جس نے تمہیں قتل کیا۔ پھر فرمایا: اے بیٹا! یہ قوم اپنے خدا کی نسبت کس قدر گستاخ اور بے شرم ہیں اور رسول اللہ کے حرم کی توہین کرتے ہیں۔ پھر فرمایا: اے میرے بیٹے! تیرے بعد اس دنیا پر تف ہے۔

امام حسین (ع) نے علی اکبر کے خون سے چلو بھر کر اسے آسمان کی طرف پھینک دیا جس کا کوئی قطرہ زمین پر نہیں گرا۔

امام حسین علیہ السلام سے صحیح سند کے ساتھ وارد ہونے والی زیارت جسے امام صادق (ع) نے ابو حمزہ ثمالی کو تعلیم دی اس میں یوں آیا ہے: بابی انت و امّی من مقدّمٍ بین یدی ابیک یحتسبک و یبکی علیک، محرقاً علیک قلبه، یرفع دمک بکفّه الی عنان السّماء لا ترجع منه قطرةٌ، و لا تسکن علیک من ابیک زفرةٌ ترجمہ: میرے ماں اور باپ اس پر فدا ہوں جس نے شہادت میں اپنے باپ پر سبقت لی اور انہوں نے تجھ پر گریہ کیا، جس کے دل میں تیرے غم کی آگ بھڑکی، جس کے خون کا چلو بھر کر آسمان کی طرف پھینکا اور اس کا کوئی قطرہ زمین کی طرف واپس نہ آیا اور آہ! تمہاری شہادت پر تمہارے باپ کو ہرگز سکون نہیں آئے گا۔

حضرت امام حسین (ع) نے حضرت علی اکبر کے لاشے کو اٹھانے کیلئے جوانان اہل بیت (ع )کو یوں حکم دیا: اپنے بھائی کے لاشے کو اٹھاؤ۔ حضرت علی اکبر کے لاشے کو اٹھانے کیلئے جوانان اہل بیت آگے بڑھے اور انہوں نے آپ کا جسد مبارک خیمۂ شہدا کے سامنے دیگر شہدا کے لاشوں کے پاس رکھ دیا۔

حضرت زینب سلام اللہ علیہا دوسری خواتین کے ہمراہ آہ و بکا کرتی ہوئی آگے بڑھیں۔ آپ نے یا اخاه! یا اخاه؛ کہتے ہوئے اپنے آپ کو نعش علی اکبر پر گرا دیا۔ حضرت امام حسین نے اپنی بہن کو خیمہ گاہ کی طرف روانہ کیا اور جوانوں کو حکم دیا کہ اپنے بھائی کو اٹھائیں۔ انہوں نے علی اکبر کو قتل گاہ سے اٹھایا خیمۂ گاہ کے برابر رکھ دیا۔

زیارت ناحیہ میں امام (ع) کی جانب سے علی اکبر کے قاتل پر لعنت کا ذکر ان الفاظ میں ہوا ہے: ... حَکمَ اللهُ علی قاتِلکَ مُرّةِ بن مُنقِذِ بنِ نُعمان العبدی، لَعنهُ الله و أخزاهُ و مَن شَرَکَ فی قَتلِکَ و کانَ عَلیکَ ظَهیراً ترجمہ: اللہ نے تیرے قاتل مرۃ بن منقذ بن نعمان عبدی لیثی پر لعنت کا حکم دیا ہے۔ اللہ اس پر لعنت کرے۔ اللہ اسے اور ہر اس شخص کو ذلیل کرے جس نے تمہیں قتل کرنے میں حصہ لیا اور تمہارے خلاف مدد کی۔
قارئین کے تبصرے
کوئی تبصرہ نہیں ہے
اپنی رائے دیں
نام:
ملک:
ای میل:
تبصرہ: