جناب زینب (عليها السلام) نے ابن زياد ملعون کو مخاطب کرتے ہوئےکہا: اچھائی کے سوا کچھ نہیں دیکھا۔۔۔

محرم اکسٹھ ہجری کو روز عاشورہ 61ھ کو امام حسین اور ان کے باوفا ساتھیوں کو تین دن کا بھوکا پیاسا ،بے دردی سے شہید کردیا گيا شہدا کے لاشوں کو پامال کیا گیا،خیام حسینی میں آگ لگادی گئی ،سیدانیوں کے سروں سے ردائیں چھینی گئیں، گیارہویں کی صبح کر بلا سے روانہ ہوتے وقت اسیری کا منظر بڑا ہی دردناک اور دل سوز تھا گیارہ محرم کو شمر بن ذی الجوشن ملعون نے جناب سید سجاد سے کہا اب تمہیں عورتوں اور بچوں سمیت کوفہ، دربار ابن زیاد میں چلنا ہوگا۔ اس کے بعد یزید ملعون کے سپاہی لٹا ہوا قافلہ پابند رسن لے کر کوفہ کے لئے روانہ ہوئے اور غضب یہ کیا کہ ان رسول زادیوۖں کو مقتل کی طرف سے گزارا گیا، مورخین کا بیان ہے کہ جیسے ہی یہ حسینی قافلہ مقتل میں پہنچا حشر کا سماں پیش ہوگیا سب خواتین اپنے عزیزوں کی لاشوں کو دیکھ کر خود کو اونٹوں سے گرا دیا۔
قافلہ کوفہ کے لئے روانہ ہوا جہاں ابن زیاد ملعون یزید کی طرف سے گورنر تھا جب قافلہ حسینی کوفہ لایا گیا تو بازار کوفہ میں داخلہ کے وقت جشن کا ماحول تھا، بازار کوفہ میں جناب زینب، جناب ام کلثوم اور امام سجاد نے اپنے خطبات کے ذریعے سانحہ کربلا کے پس منظر اور بنو امیہ کے مظالم بیان کیے اور اسلام کو تباہ کرنے کی سازش سے پردہ اٹھایا تو ہر طرف سناٹا چھا گیا۔

جب اسیران آل محمدؐ اور شہدائے کربلا کے سروں کو کوفہ کے شہر میں پھیرانے کے بعد جب ابن زیاد دربار میں پہنچا تو عوام کو دربار میں داخل ہونے کی اجازت دی اور امام حسینؑ کے سر کو اس کے سامنے رکھا گیا اور پہر اسیر خواتین اور امام حسینؑ کے بچوں کو دربار میں لایا گیا۔ جناب زینب حقیر لباس میں ملبوس خواتین اور کنیزوں کے حصار میں تھیں اور ناشناختہ طور پر دربار میں آئی اور کسی کونے میں بیٹھ گئی۔

عبیداللہ ابن زباد نے پوچھا: «یہ عورت جو کونے میں خواتین کے درمیان ہے کون ہے؟» زینب نے جواب نہیں دیا۔ عبیداللہ نے اپنا سوال پھر سے دہرایا۔ تو کسی کنیز نے کہا: «وہ پیغمبر کی بیٹی فاطمہ کی بیٹی زینب ہیں۔»

عبيدالله بن زیاد: تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے جس نے تمہارے خاندان کو رسوا کیا، مارا اور دکھایا کہ جو کچھ تم کہہ رہے تھے سب جھوٹ تھا۔

زینب: تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے ہمیں پیغمبر کے ذریعے نوازا (ہماری خاندان سے ہے) اور ہر ناپاکی سے دور رکھا۔ فاسق کے علاوہ کسی کی رسوائی نہیں ہوتی، اور بدکار کے علاوہ کوئی جھوٹ نہیں بولتا، اور بدکار ہم نہیں دوسرے ہیں (یعنی تم اور تمہارے پیروکار بدکار ہیں۔) اور تعریف صرف اللہ کے لیے ہے۔

ابن زیاد: دیکھ لیا کہ اللہ تعالی نے تمہارے خاندان کے ساتھ کیا کیا؟

زینب: اچھائی کے سوا کچھ نہیں دیکھا! یہ وہ لوگ تھے جن کی مقدر میں اللہ تعالی نے قتل ہونا قرار دیا تھا اور انہوں نے بھی اطاعت کی اور اپنی ابدی منزل کی جانب چلے گئے اور بہت جلد اللہ تعالی تمہیں ان کے سامنے کرے گا اور وہ اللہ تعالی سے تمہاری شکایت کرینگے، تب دیکھنا کہ اس دن کون کامیاب ہوتا ہے، اے ابن مرجانہ کے بیٹے تم پر تمہاری ماں روئے!

ابن زیاد: اللہ نے تمہارے نافرمان بھائی حسین، اس کی خاندان اور سرکش لشکر کو مار کر مرے دل کو شفا بخشا۔

زینب: خدا کی قسم تم نے ہمارے بزرگ کو مارا،ہمارے درخت کو کاٹا اور جڑ کو اکھاڑا، اگر یہ کام تمہاری شفا کا باعث ہو تو حتما تم نے شفا پایا ہے۔

ابن زیاد غصہ اور توہین آمیز حالت میں: یہ بھی اپنے باپ علی کی طرح ماہر خطیب ہے؛ اپنی جان کی قسم! تمہارا باپ بھی شاعر تھا اور سجع اور قافیے میں بات کرتا تھا

زینب: ایک عورت کو سجع اور قافیوں سے کیا کام؟» (یہ سجع کہنے کا کونسا وقت ہے؟

حضرت زینب اور عبیدالله کے درمیان سخت گفتگو ہوئی اور اس کے بعد عبیدالله ابن زیاد امام سجاد(ع) کی جنب متوجہ ہوا اور آپ(ع) کے قتل کا حکم صادر کیا۔ لیکن حضرت زینب کے تند و تیز لہجے میں گفتگو کے بعد عبید اللہ اپنا حکم واپس لینے پر مجبور ہوگیا۔

ابن زیاد ملعون نے کوفہ کے بازاروں اور اپنے دربار میں اسیران کربلا کی تشہیر کرنے کے بعد ''مخدرات عصمت و طہارت'' کو قید کر دیا اور اس کے بعد انیس محرم یزید ملعون کو خوش کرنے کی خاطر اور حکم یزید کی تعمیل کرتے ہوئے'' شام'' کیلئے روانہ کر دیا۔
قارئین کے تبصرے
کوئی تبصرہ نہیں ہے
اپنی رائے دیں
نام:
ملک:
ای میل:
تبصرہ: