اعلی دینی قیادت نے ملکی مسائل کے حل اور شہریوں کے مطالبات کو پورا کرنے کیلئے ایک جامع لائحہ عمل پیش کیا ہے اور 2015ء میں بحران کے حل کیلئے اپنی پیش کردہ تجاویز بھی حکومت کو یاد کروائی ہیں

اعلی دینی قیادت نے عراق کے حالیہ واقعات کے بارے میں ایک بیان جاری کیا ہے اور اپنی ان تجاویز کا ذکر کیا ہے جو اعلی دینی قیادت نے 2015ء میں ملکی مسائل کے حل اور عوام کے مطالبات کو پورا کرنے کے لئے پیش کی تھیں۔ اس بیان کو اعلی دینی قیادت کے خصوصی نمائندے اور روضہ مبارک حضرت عباس(ع) کے متولی شرعی علامہ سید احمد صافی (دامت برکاتہ) نے (4 صفر 1441ھ) بمطابق (4 اکتوبر 2019ء) کو نماز جمعہ کے دوسرے خطبہ کے دوران پڑھا۔ علامہ صافی نے روضہ مبارک امام حسین(ع) میں نماز جمعہ کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: میرے بھائیو اور بہنو! میں آپ کی خدمت میں نجف اشرف میں موجود اعلی دینی قیادت آیت اللہ العظمی سید علی حسینی سیستانی (دام ظلہ) کے مرکزی دفتر سے جاری ہونے والے بیان کو پڑھتا ہوں: پچھلے دنوں بغداد اور کچھ دیگر شہروں میں پرامن مظاہرین ، سیکیورٹی فورسز اور سرکاری و نجی املاک کو ناقابل قبول اور قابل مذمت حملوں کا نشانہ بنایا گیا، بہت سے موقعوں پر یہ مظاہرے ہنگاموں اور خونی جھڑپوں کی شکل اختیار کر گئے، جس کے نتیجے میں دسیوں افراد جاں بحق ہوئے، لوگوں کی بڑی تعداد زخمی ہوئی، اور حکومتی اداروں کو نقصان پہنچا، اس کے علاوہ بہت سے تکلیف دہ اور افسوسناک مناظر دیکھنے میں آئے۔ اسی طرح کے واقعات بعض پچھلے سالوں میں رونما ہو چکے ہیں۔ اعلیٰ دینی قیادت ہمیشہ سے حکام اور اقتدار کی باگ ڈور سنبھالنے والوں سے مطالبہ کرتی چلی آئی ہے کہ ملکی مسائل سے نمٹنے کے لئے اپنے طرز عمل میں تبدیلی لائیں اور حکومتی انتظامیہ میں اصلاح، اور بدعنوانی، صداقت کو نظرانداز کرنے اور آپسی بانٹ کے خلاف سنجیدہ اقدامات اٹھائیں۔ اعلی دینی قیادت نے اصلاحات میں رکاوٹ ڈالنے والوں اور مطالبات کی آواز کو کم کرنے والوں تنبیہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ جان لیں کہ اب اصلاحات ایک ناگزیر ضرورت بن چکی ہے ، اور اگر اصلاحات کا مطالبہ ابھی کچھ عرصے کے لئے کم بھی ہو گیا تو وہ زیادہ مضبوط اور وسیع طریقے کے ساتھ دوبارہ واپس آئے گا۔ آج اعلی دینی قیادت پہلے کی طرح پھر سے تینوں سرکاری قوات سے پرزور مطالبہ کرتی ہے کہ وہ حقیقی اصلاحات کی راہ میں واضح عملی اقدامات اٹھائیں، اعلی دینی قیادت نے اس بات پر زور دیا ہے کہ ایوان نمائندگان قانون سازی اور نگرانی کے اختیارات رکھنے کی بدولت اس حوالے سے سب سے زیادہ ذمہ دار ہے ، جب تک کہ حکومت (بنانے والی سب سے بڑی پارٹی) اپنے طریقہ کار کو تبدیل نہیں کرے گی اور اصلاحات کے مطالبہ کا کوئی جواب نہیں دے گی اس وقت تک زمینی حقائق میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ اسی طرح سے بدعنوانی سے نمٹنے ، کرپٹ لوگوں کو پکڑنے، اور عوام کا پیسہ ان سے واپس لینے کی ذمہ داری عدلیہ اور نگرانی کرنے والے اداروں کے کاندھوں پر بھی عائد ہوتی ہے ، لیکن انھوں نے بھی پہلے ایسا کچھ نہیں کیا جو اس سلسلے میں ضروری تھا۔ اگر یہ معاملہ اسی طرح باقی رہا تو ، ملک میں بدعنوانی کے خاتمے کی کوئی امید باقی نہیں رہے گی۔ حکومت کو اپنے فرائض کی انجام دہی کرنی ہو گی اور عوامی خدمات میں بہتری لا کر ، بے روزگار افراد کے لیے ملازمت کے مواقع فراہم کر کے اور سرکاری تقرریوں میں آپسی بانٹ سے احتناب کر کے عوام کی مشکلات کو کم کرنا ہو گا۔ حکومت کو چاہئے کہ تمہیدی طور پر جن پر بھی عوامی فنڈز میں ہیرا پھیری کے الزامات ہیں انھیں انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے ان کے کیسز مکمل تیار کرے۔ یہاں یہ واضح رہے کہ اعلی دینی قیادت کے دفتر نے 7 اگست 2015ء کو متعلقہ حکام کے ساتھ رابطہ کر کے اصلاحات کے عوامی مطالبے کو پورا کرنے کے لیے تجویز پیش کی تھی کہ (متعلقہ شعبہ جات کے ایسے معروف ماہرین پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی جائے جو حکومتی اداروں کا حصہ نہ ہوں اور جن کی سچائی یقینی ہو اور ان کی اعلی پیشہ وارانہ مہارت اور مکمل ایمانداری بھی معروف ہو۔ اس کمیٹی کو یہ ذمہ داری سونپی جائے کہ وہ بدعنوانی سے نمٹنے اور مطلوبہ اصلاحات کے حصول کے لئے ضروری اقدامات کا تعین کرے، اس کمیٹی کے ارکان کو صورتحال سے دقیق آگاہی کی اجازت ہونی چاہیے اور یہ کمیٹی ملک میں مؤثر پروگراموں شرکت کرے اور ان کی انتظامیہ کے ساتھ ملے بالخصوص مختلف شہروں میں مظاہرین کے نمائندوں سے ملاقات کرے ان کے مطالبات اور خیالات کو سنے. جب کمیٹی اپنا کام مکمل کر لے اور مطلوبہ قانونی، یا تنفیذی، یا عدالتی اقدامات کی تعیین کر دے تو ان اقدامات کو قانونی طور پر عملی جامہ پہنایا جائے، چاہے اس کے لیے دینی قیادت اور عوام کی مدد ہی کیوں نہ لینی پڑے۔) لیکن اُس وقت اس تجویز پر عمل نہیں کیا گیا تھا، شاید موجودہ بحران سے نکلنے کے لیے اس تجویز پر اِس وقت عمل کرنا مناسب ہو گا۔ ہم امید کرتے ہیں کہ ذمہ داری اور فیصلہ سازی کے عہدوں پر فائز افراد پر عقل، منطق اور ملکی مفاد حاوی رہے گا، تاکہ وقت کے ہاتھ سے نکلنے سے پہلے معاملات و امور کا تدارک کر سکیں۔ اور ہم یہ بھی امید کرتے ہیں کہ ہر ایک احتجاجی تحریک میں تشدد اور انسداد تشدد کے استعمال کے مشوروں سے خبر دار اور اس کے سنگین نتائج سے آگاہ رہے گا۔ خدا سب کے ہاتھوں سے ایسے کام کروائے جن میں عراق اور اس کے عوام کی بھلائی ہے۔ والسلام عليكم ورحمة الله وبركاته
قارئین کے تبصرے
کوئی تبصرہ نہیں ہے
اپنی رائے دیں
نام:
ملک:
ای میل:
تبصرہ: