د
اعلی دینی قیادت کی یکجہتی صرف اور صرف عوام کے ساتھ ہے اور وہ صرف اور صرف عوام کے مفادات کا دفاع کرتی ہے، اس کا کسی حکومتی طرف سے نہ کوئی تعلق ہے اور نہ ہی کوئی مفاد وابستہ ہے۔ اعلی دینی قیادت نے 2006ء میں پہلے انتخابات کے بعد حکومت کی تشکیل کے وقت واضح کیا تھا (عوامی مفادات کو ٹھیس پہنچانے والی کسی بھی طرف کے لیے نہ تو دینی قیادت نے نرم گوشہ رکھا اور نہ ہی کبھی رکھیں گے۔ دینی قیادت حکومت کی کارکردگی کو دیکھتی رہی اور ضرورت کے وقت اسے خلل کے بارے میں بھی آگاہ کرتی رہی۔ دینی قیادت کی آواز ہمیشہ ظلوم و محروم عوام کے ساتھ رہے گی چاہے ان کا رجحان و تعلق کسی بھی نظریہ، گروہ اور قوم سے ہو)۔
اس بات کا ذکر اعلی دینی قیادت آیت اللہ العظمی سید علی حسینی سیستانی (دام ظلہ الوارف) کے خصوصی نمائندے اور روضہ مبارک امام حسین(ع) کے متولی شرعی علامہ شیخ عبد المہدی کربلائی (دام عزہ) نے (12 صفر 1441هـ) بمطابق (11 اکتوبر 2019ء) کو نماز جمعہ کے اجتماع سے خطاب کے دوران کیا۔ روضہ مبارک امام حسین(ع) میں نماز جمعہ کے دوسرے خطبہ میں علامہ کربلائی نے فرمایا:
گزشتہ جمعہ میں بتایا گیا دینی قیادت نے پچھلے ہفتے ہونے والے ملک گیر مظاہروں کے دوران پرامن مظاہرین اور سیکورٹی فورسز پر حملوں اور بعض حکومتی اور نجی املاک کو آگ لگائے جانے کی مذمت کی ہے، اور سب سے امید ظاہر کی ہے وہ ملک میں جاری مظاہرات کے دوران تشدد اور انسداد تشدد کے لیے تشدد کے خطرات کو سمجھیں اور ہر حال میں اس سے پرہیز کریں۔
لیکن گزشتہ دنوں میں تشدد کے واقعات میں مزید اضافہ ہوا اور مظاہرین پر گولیاں چلائی گئيں، مظاہروں کی کوریج کرنے والے بہت سے ذرائع ابلاغ پر مذموم حملے کیے گئے۔
اور یہ سب اس وقت ہوا جب حکومت نے اعلان کیا تھا کہ اس نے سیکورٹی فورسز کو مظاہرین پر گولی نہ چلانے کے سخت احکامات جاری کیے ہیں، لیکن اس کے باوجود بہت سے مشاہدین اور سامعین کے سامنے بغداد، ناصريّة، ديوانيّة اور دیگر شہروں میں براہ راست فائرنگ کے نتیجہ میں ہزاروں شہید اور زخمی ہوئے، ان مناظر میں سنگ دلی کی تمام حدود کو پار کرتے ہوئے افراد دیکھے گئے۔
حکومت اور سیکورٹی فورسز گزشتہ دنوں مظاہروں کے دوران ہونے والی خون ریزی کی ذمہ دار ہے چاہے متاثر ہونے والا کوئی سیکورٹی اہلکار ہے یا مظاہرہ کرنے والا سویلین، حکومت کے لیے اس ذمہ داری سے فرار ممکن نہیں ہے
جب امن و امان قائم کرنے والے بعض افراد مظاہرین کے خلاف تشدد کا استعمال کرتے ہیں تو اس کی ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے، چاہے انھوں نے احکامات کی پیروی میں ایسا کیا یا احکامات کی مخالفت میں، یا ان کے پاس اس قسم کے مظاہروں اور مظاہرین کو ڈیل کرنے کی صلاحیت ہی نہیں تھی کہ وہ مظاہرین کی جانوں کے نقصان سے بچ سکیں۔
جب قانون توڑنے والے بعض مسلحہ عناصر مظاہرین کو نشانہ بناتے ہیں اور صحافیوں کو ڈراتے دھمکاتے ہیں تو اس کی ذمہ داری بھی حکومت پر ہی عائد ہوتی ہے۔
جب مظاہرین میں چھپے چند گھس بیٹھیوں سے حکومت اپنے سیکورٹی اہلکاروں اور اپنے املاک کو نہیں بچا سکتی تو اس کی ذمہ داری بھی حکومت پر ہی عائد ہوتی ہے۔
دینی قیادت ناہتھے افراد پر خونی و جسمانی حملوں کی شدید مذمت کرتی ہے، دینی قیادت کی تمام ہمدردیاں شہداء زخمیوں اور ان کے لواحقین
کے ساتھ ہیں۔
دینی قیادت تاکیدا پرامن مظاہرین کے قانونی مطالبات کے ساتھ ہے اور گزشتہ تمام مظاہروں میں بھی دینی قیادت کا یہی موقف رہا ہے۔ دینی قیادت حکومت اور عدلیہ سے مطالبہ کرتی ہے جو کچھ بھی مظاہروں کے دوران ہوا اس کی شفاف تحقیفات کروائی جائيں اور سب کے سامنے ان افراد کو لایا جائے جنھوں نے گولی چلائی یا گولی چلانے کا حکم دیا، اور انھیں قانون کے کٹھرے میں لانے سے کسی قسم کا گریز نہ کیا جائے اور اس کام کو محدود مدت (دو ہفتہ) میں مکمل کیا جائے جیسا کہ گزشتہ کیسز میں تحقیقی کمیٹیوں نے کیا تھا۔ یہ کام فی الحال نہیایت اہمیت کا حامل ہے اور اسی سے حقیقی اصلاحات کی حکومتی نیت کے بارے میں سچائی ظاہر ہو گی۔ جس اصلاحی منصوبہ میں قانونی دائرہ میں رہتے ہوئے حکومتی ہیبت اور امن و امان کا قیام، دستور کی عطا کردہ اجتماعی و شخصی آزادی پر حملوں کی روک تھام اور دھمکانے والوں، مارپیٹ کرنے والوں، اغواء کرنے والوں، نشانہ بازوں اور قاتلوں کو قانونی شکنجے میں نہ لایا جائے تو اصلاحی منصوبہ کامیاب نہیں ہوتا چاہے وہ مالی یا اداری بدعوانی کی اصلاح ہو اور عدالتی کاروائی کا متقاضی کوئی امر ہو۔
اعلی دینی قیادت کی یکجہتی صرف اور صرف عوام کے ساتھ ہے اور وہ صرف اور صرف عوام کے مفادات کا دفاع کرتی ہے، اس کا کسی حکومتی طرف سے نہ کوئی تعلق ہے اور نہ ہی کوئی مفاد وابستہ ہے۔ اعلی دینی قیادت نے 2006ء میں پہلے انتخابات کے بعد حکومت کی تشکیل کے وقت واضح کیا تھا (عوامی مفادات کو ٹھیس پہنچانے والی کسی بھی طرف کے لیے نہ تو دینی قیادت نے نرم گوشہ رکھا اور نہ ہی کبھی رکھیں گے۔ دینی قیادت حکومت کی کارکردگی کو دیکھتی رہی اور ضرورت کے وقت اسے خلل کے بارے میں بھی آگاہ کرتی رہی۔ دینی قیادت کی آواز ہمیشہ ظلوم و محروم عوام کے ساتھ رہے گی چاہے ان کا رجحان و تعلق کسی بھی نظریہ، گروہ اور قوم سے ہو)۔
ولا حول ولا قوّة إلّا باللّه العليّ العظيم.