یکم ربیع الاول: شب ہجرت اور حضرت علی(ع) کا تلواروں تلے بستر رسول پر سونا

ہمارے ہاتھوں میں موجود اسلامی تاریخ میں بہت سے اہم واقعات درج ہیں لیکن ان واقعات کو سرسری طور پر پڑھ لینا اور لفظوں سے عبور کرنا کافی نہیں ہے کیونکہ ان واقعات کے پس منظر میں بہت سی عبرت ناک اور قابلِ نصیحت حقیقتیں پوشیدہ ہوتی ہیں اور ان واقعات کی تہہ میں سے بہت سی ایسی صدائیں بلند ہوتی ہیں کہ جن کا تعلق ہمارے اہم عقائد سے ہے۔

تاریخ میں مذکور واقعات میں سے ایک اہم واقعہ حضرت محمد(ص) کی مکہ سے مدینہ کی جانب ہجرت بھی ہے کہ جس میں رسول خدا(ص) نے مختلف امور کی انجام دہی کے لیے حضرت علی(ع) کو اپنا نائب مقرر کیا اور آپ کو ہی اپنے بستر پر سونے کا حکم دیا تھا حالانکہ رسول خدا جانتے تھے قریش اور ان کے ساتھی قبائل گھر پر حملہ کر کے انہیں نیند میں ہی قتل کردینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ اگر ہم اس تاریخی واقعہ کو غوروفکر اور مکمل بصیرت کے ساتھ پڑھیں تو ہمیں اس واقعہ سےکیا عقائدی درس ملتا ہے ؟

یہاں ہمارے ذہن میں تاریخ کی ورق گردانی کرنے سے ایک اور سوال بھی ابھرتا ہے اور وہ یہ ہے شب ہجرت میں حضرت علی(ع) کے بسترِ رسول پر سونے کو کیوں بے توجہی کا شکار کیا گیا ہے اور اس واقعہ کی گہرائیوں میں موجود حقائق اورمعانی و مفاہیم سے کیوں دور رکھا گیا ہے؟

حضرت علی(ع) کا بسترِ رسول(ص) پر سونا جہاں ایک بہت بڑی آزمائش ہے وہاں ایک بہت بڑی فضیلت بھی ہے، اگر کوئی مومن حضرت علی(ع) کی اس عظیم فضیلت کے بارے میں غوروفکر کرے تو اس کے سامنے بہت سے فضائل و مناقب کے باب کھل سکتے ہیں۔

رسول خدا(ص) کو قتل کرنے کی قریش کی سازش:

حضرت نبی کریم(ص) کو تبلیغ اسلام اور الہی پیغامات کو لوگوں تک پہنچانے سے روکنے کے لیے جب قریش کے تمام حربے ناکام ہو گئے تو انہوں نے رسول خدا(ص) کو ان کے بستر پر ہی قتل کردینے کا فیصلہ کیا اور قتل کی سازش اس طرح سے تیار کی کہ قتل کا ناپاک ارادہ رکھنے والے قریش کے تمام قبائل میں سے ایک ایک فرد لیا جائے اور وہ تمام افراد مل کر رسول خدا(ص) پر حملہ کر کے انہیں قتل کردیں اس طرح سے رسول خدا(ص) کے قتل میں تمام قبائل شامل ہوجائیں گے اور رسول خدا (ص) کا قبیلہ تمام قبائل سے اس قتل کا بدلہ نہیں لے پائے گا اور نہ ہی اس کے پاس تمام قبائل کا مقابلہ کرنے کی طاقت ہے۔

جبرائیل کا رسول خدا(ص) کو قریش کی سازش سے آگاہ کرنا:

اللہ تعالی نے حضرت جبرائیل کے ذریعے رسول خدا(ص) کو قریش کی سازش سے آگاہ کیا اور انہیں مدینہ کی طرف ہجرت کرنے کا حکم دیا اور اس وقت یہ آیت نازل ہوئی{وَإِذْ يَمْكُرُ بِكَ الَّذِينَ كَفَرُواْ لِيُثْبِتُوكَ أَوْ يَقْتُلُوكَ أَوْ يُخْرِجُوكَ وَيَمْكُرُونَ وَيَمْكُرُ اللّهُ وَاللّهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ} سورہ انفال 30

ترجمہ :کافر لوگ تمہارےبارے میں چال چل رہے تھے کہ تم کو قید کر دیں یا جان سے مار ڈالیں یا (وطن سے) نکال دیں تو (ادھر )خدا چال چل رہا تھا اور خدا سب سے بہتر چال چلنے والا ہے۔

رسول خدا (ص) کا حضرت علی(ع) کو اپنے بستر پر سلانا:

جب رسول خدا(ص) کو وحی کے ذریعے اس بات کا علم ہوا کہ قریش کے قبائل قتل کی سازش پر معاہدہ کر چکے ہیں تو اس وقت رسول خدا(ص) نے اپنے سب سے زیادہ قابل اعتماد، سب سے قریبی، راہ خدا میں سب سے زیادہ امتحانوں سے گزرنے والے اور خدا کی اطاعت پر فورا سر تسلیم خم کرنے والے نوجوان علی بن ابی طالب(ع) کو بلاکر فرمایا:(يا علي، إنّ الروح هبط عليّ بهذه الآية آنفا، يخبرني أنّ قريشا اجتمعوا على المكر بي وقتلي، وأنّه أوحى إليّ ربّي عزّ وجل أن أهجر دار قومي، وأن أنطلق إلى غار ثور تحت ليلتي، وأنّه أمرني أن آمرك بالمبيت على مضجعي، ليُخفى بمبيتك عليه أثري، فما أنت قائل وصانع)؟ فقال علي: (أو تَسلمَنَّ بمبيتي هناك يا نبي الله)؟ قال: (نعم)، فتبسم علي ضاحكاً، وأهوى إلى الأرض ساجداً، شكراً بما أنبأه رسول الله من سلامته ...) الأمالي: ص465.

اے علی ابھی جبرائیل میرے پاس یہ آیت لے کر آیا ہے{وَإِذْ يَمْكُرُ بِكَ الَّذِينَ كَفَرُواْ لِيُثْبِتُوكَ أَوْ يَقْتُلُوكَ أَوْ يُخْرِجُوكَ وَيَمْكُرُونَ وَيَمْكُرُ اللّهُ وَاللّهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ} اور اس نے مجھے بتایا ہے کہ قریش نے میرے ساتھ دغہ بازی اور میرے قتل کا فیصلہ کیا ہے اور میرے پروردگار نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں اپنے مسکن کو چھوڑ دوں اور آج ہی رات غار ثور میں چلا جاؤں اور اسی طرح خدا نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمہیں اپنے بستر پر رات کو سونے کا حکم دوں تا کہ تمہارے اس بستر پر سونے سے میں پوشیدہ رہوں ،اب تم بتاؤ کہ تمہارا اس بارے میں کیا ارادہ ہے ؟

تو حضرت علی (ع) نے فرمایا:اے اللہ کے رسول!کیا آپ کے بستر پر میرے سونے سے آپ کی جان محفوظ ہوجائے گی تو رسول خدا(ص) نے فرمایا:ہاں اس طرح سے میری جان بچ جائے گی ۔

جب حضرت علی(ع) نے رسول خدا(ص) کی یہ بات سنی تو مسکرائے اور اس خوشی میں کہ رسول خدا (ص) کی جان بچ جائے گی شکر کے طور پر زمین پہ سجدہ ریز ہو گئے۔

اس کے بعد حضرت علی(ع) کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی:{وَمِنَ النَّاسِ مَن يَشْرِي نَفْسَهُ ابْتِغَاء مَرْضَاتِ اللّهِ وَاللّهُ رَؤُوفٌ بِالْعِبَادِ}البقرة: 207.

ترجمہ:اور لوگوں میں ایک شخص ایسا ہے کہ جو خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے اپنی جان بیچ ڈالتا ہے اور خدا بندوں بہت مہربان ہے۔

ایک روایت میں ہے کہ رسول خدا(ص) نے حضرت علی(ع) سے فرمایا: (نَم على فراشي واتشح ببردي الحضرمي الأخضر فنم فيه فإنه لا يخلص إليك شيء تكرهه منهم) تاريخ الطبري: ج2، ص 99، السيرة النبويّة لابن هشام: ج2، ص333.

میرے بستر پر سوجاؤ اور میری سبز حضرمی چار اوڑھ لو اور جس چیز کو دشمنوں سے تم ناپسند کرتے ہو وہ تم تک نہ پہنچے گی۔

رسول خدا(ص) نے حضرت علی (ع)کورسول و رسالت کے قتل کے لئے تیاربے نیام تلواروں کی دھاروں کے سامنے اپنے آپ کو پیش کرنے کے لئے کہا اور حضرت علی(ع) نے اس امتحان کو باخوشی قبول کیا، رسول خدا(ص) کے بستر پر خدا کی اطاعت و فرمانبرداری کرتے ہوئے سو گئے اور رسول و رسالت کی حفاظت کے لیے خود کو پیش کر دیا۔ اپنی زندگی کو قربانی کے لیے پیش کردینے سے بڑھ کر کوئی ایسا درجہ نہیں ہے کہ جسے کوئی صابر حاصل کرسکتا ہے ،یا جسے کوئی طالب پا سکتا ہے یا جس تک کوئی سخی اپنی سخاوت سے پہنچ سکتا ہے ۔

رسول خدا(ص) نے شب ہجرت فقط حضرت علی(ع) کو اپنے بستر پر سونے کا اس لیے حکم دیا تھا کیونکہ رسول خدا (ص) باخوبی جانتے تھے کہ اس امتحان اور اس مرتبہ کی اہلیت فقط اور فقط حضرت علی(ع) میں ہی ہے۔

علماء کہتے ہیں: إنّ فضيلة أمير المؤمنين(ع) تلك الليلة، لا نعلم أحداً من البشر نال مِثلَها، فإنّه ما تلكّأ ولا تَتعْتَع، ولا تغيّر لونه ولا اضطربت أعضاؤه. ولا يصبر على ثقل هذه المحنة أو يتقدّم نحو هذا الموقف إلاّ مَن خصّه الله تعالى بالصبر على مشقّة ذلك والفوز بفضليته، وله من جنس ذلك أفعالٌ كثيرة. شرح نهج البلاغة لابن أبي الحديد: ج13، ص258-261.

حضرت علی(ع) نے شب ہجرت جس فضیلت کو حاصل کیا ہے ایسی فضیلت آج تک کسی انسان کو حاصل نہیں ہوئی ہے حضرت علی(ع) نے اس حکم کے ملنے کے بعد نہ تو تردد و سستی کا مظاہرہ کیا، نہ ہی خوف و قلق کا شکار ہوئے، نہ ان کا رنگ متغیر ہوا اور نہ ان کے اعضاء و جوارح میں اضطراب پیدا ہوا۔ اس امتحان کے بوجھ تلے وہی صبر کرسکتا ہے اور خود کو عمل کے لیے فقط وہی پیش کرسکتا ہے جس کو اللہ تعالی نے اس مشقت پر صبر کرنے اور اس فضیلت کو حاصل کرنے کے لیے مختص کر رکھا ہے اور حضرت علی(ع) کے اس جیسے بہت زیادہ فضائل موجود ہیں۔

مفسرین کے نزدیک شب ہجرت:

{وَإِذْ يَمْكُرُ بِكَ الَّذِينَ كَفَرُواْ لِيُثْبِتُوكَ أَوْ يَقْتُلُوكَ أَوْ يُخْرِجُوكَ وَيَمْكُرُونَ وَيَمْكُرُ اللّهُ وَاللّهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ} انفال 30

ترجمہ :کافر لوگ تمہارےبارے میں چال چل رہے تھے کہ تم کو قید کر دیں یا جان سے مار ڈالیں یا (وطن سے) نکال دیں تو (ادھر )خدا چال چل رہا تھا اور خدا سب سے بہتر چال چلنے والا ہے۔

مفسرین نے اس آیت کریم کی تفسیر کرتے ہوئے اپنی تحقیقات و آراء کو لکھا ہے : مفسرین کا کہنا ہے کہ یہ آیت شب ہجرت کے بارے میں نازل ہوئی ہے اس آیت میں قریش کے مکر سے مراد قریش کے تمام قبائل میں سے ایک ایک فرد کا اس سازش میں شامل ہونا اور قتل کے جرم میں تمام قبائل کا شریک ہونا ہے اور خدا کے مکر سے مراد:حضرت علی(ع) کو بستر رسول(ص) پر سلانا ہے کیونکہ حضرت علی (ع) کے اس عمل کی وجہ سے ان کی سازش ناکام ہوئی۔

ارشاد قدرت ہے:{ومِنَ الناسِ مَن يَشري نفسَه ابتغاءَ مَرضاةِ الله} سورة البقرة:207

ترجمہ:اور لوگوں میں ایک شخص ایسا ہے کہ جو خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے اپنی جان بیچ ڈالتا ہے اور خدا بندوں بہت مہربان ہے۔

تمام مفسرین کا کہنا ہے: جب حضرت علی (ع) شب ہجرت رسول خدا(ص) کے بستر پر سوئے تو مذکورہ بالا آیت حضرت علی(ع) کی شان میں نازل ہوئی ۔

(شرح نہج البلاغہ مؤلفہ ابن ابی الحدید،ج۱۳ ،ص۲۶۲۔تفسیر البیان ،طبری ،ج۹،ص۲۹۸و۳۰۴)

رسول خدا(ص) کا گھر سے نکلنا:

بعثت کے تیرھویں سال یکم ربیع الاول کو مکہ سے ہجرت کرنے کے لئے رات کے پہلے حصے میں گھر سے باہر آئے جبکہ گھر کو چاروں طرف سے قریش کے جاسوسوں اور حملہ آوروں نے گھیر رکھا تھا اور وہ حملہ کرنے کے لیےآدھی رات ہونے اور تمام لوگوں کے سونے کا انتظار کر رہے تھے۔

جب رسول خدا(ص) گھر سے نکلے تو اس آیت کریم کی تلاوت فرما رہے تھے {وَجَعَلْنَا مِن بَيْنِ أَيْدِيهِمْ سَدّاً وَمِنْ خَلْفِهِمْ سَدّاً فَأَغْشَيْنَاهُمْ فَهُمْ لاَ يُبْصِرُونَ} (یس ٩)

ترجمہ:اور ہم نے ان کے آگے بھی دیوار بنا دی اور ان کے پیچھے بھی، پھر ان پر پردہ ڈال دیا اور وہ دیکھ نہیں سکتے۔

سازش کی ناکامی :

بغض و حقد اور خباثت و گندگی سے بھرے دلوں کے ساتھ قریش کے حملہ آور اپنے منصوبے کے مطابق جب رسول خدا(ص) کے گھر میں بے نیام تلواریں لہراتے ہوئے داخل ہوئے تو حضرت علی(ع) اپنی شجاعت و بہادری کے شہرہ آفاق جوہروں کے ساتھ رسول خدا(ص) کے بستر سے اٹھے تو قریش کے سارے سورما گھبرا کر پیچھے ہٹ گئے اور سب نے اپنی خیریت واپس لوٹ جانے میں ہی سمجھی ۔

جب قریش کو اپنے منصوبے کی ناکامی کا علم ہوا تو وہ رسول خدا(ص) کی تلاش کے لئے نکل کھڑے ہوئے لیکن اللہ تعالی نے ان کی آنکھوں سے اپنے رسول (ص) کو اوجھل کر دیا حالانکہ یہ عرب کے مانے اور منجھے ہوئے لوگ تھے کہ جو اڑتے پرندوں کے نشان پرواز کو پا لیتے تھے اور کسی قافلے ، سوار یا کسی پیدل چلتے آدمی کی تلاش ان کے لیے معمولی کام تھا۔

اللہ تعالی نے ایک مکڑی کو بھیجا کہ جس نے رسول خدا(ص) کے غار ثور میں جانے کے بعد غار کے منہ پہ جالا بُن دیا اور کبوتروں کے ایک جوڑے کو بھیجا کہ جس نے غار کے دہانے پہ اپنا گھونسلا بنا کر انڈے دے دیے ۔

جب قریش نے غار کے منہ پرمکڑی کا جالا اور کبوتروں کے جوڑے کو پایا تو انہیں یقین ہو گیا کہ اس غار میں کوئی داخل نہیں ہوا اور وہ رسول خدا(ص) کی تلاش سے مایوس ہو گئے۔

رسول خدا (ص) یثرب (مدینہ)سے کچھ فاصلے پر مقام قباء میں حضرت علی(ع) کے انتظار کے لیے رک گئے جبکہ حضرت علی(ع)حضرت فاطمہ زہرا(س) حضرت فاطمہ بنت اسد(س) اور فاطمہ بنت زبیر کو لے کر مکہ سے مدینہ کے لیے روانہ ہوئے توقریش کے کچھ افراد منہ پر کپڑے لپیٹ کر حضرت علی(ع) کا راستہ روکنے کے لیے آگئے ،حضرت علی(ع) نے انہیں پہچان لیا اور ان سے کہا : (فإنِّي مُنطَلِق إلى ابن عَمِّي رسول الله(ص) بيثرب، فمن سَرَّه أن أفري لحمه وأُريقَ دمه فَلْيتَعَقبني، أو فَليَدْنُ منّي) الأمالي: ص471

میں اپنے چچازاد بھائی اور اللہ کے رسول(ص) کے پاس یثرب جا رہا ہوں جسے پسند ہے کہ میں اس کے گوشت کے ٹکڑے ٹکڑے کروں اور اس کا خون بہا ڈالوں وہ میرا پیچھا کرے یا میرے قریب آجائے۔

لیکن جب قریش کے ان سورماؤں نے حضرت علی(ع) کی یہ بات سنی تو خوف کے مارے واپس پلٹ گئے ۔

پھر حضرت علی(ع) اطمینان قلب کے ساتھ سفر کرتے ہوئے رسول خدا(ص) سے جاملے اور جب حضرت علی(ع) فواطم(ع) کے ہمراہ رسول خدا(ص) کے پاس پہنچے تو یہ آیت نازل ہوئی: {فَاسْتَجَابَ لَهُمْ رَبُّهُمْ أَنِّي لاَ أُضِيعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنكُم مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَى بَعْضُكُم مِّن بَعْضٍ} آل عمران: 195.

تو ان کے پروردگار نے ان کی دعا قبول کرلی(اور فرمایا)کہ میں کسی عمل کرنے والے مرد یا عورت کے عمل کو ضائع نہیں کرتا ۔۔۔۔

رسول خدا (ص) نے حضرت علی(ع) کو ملنے کے بعد مذکورہ بالا آیت کی تلاوت فرمائی اور فرمایا: (يَا عَلي، أنتَ أوَّل هَذه الأُمّة إيماناً بالله ورسُولِه، وأوّلهم هِجْرة إلى الله ورسُولِه، وآخرهم عَهْداً برسولِه، لا يُحبّك والَّذي نَفسي بِيَده إلاَّ مُؤمِن قَد امتحنَ اللهُ قلبَه للإيمان، ولا يبغضُكَ إلاَّ مُنافِق أو كَافِر) مناقب آل أبي طالب: ج1، ص160.

اے علی تم اس امت کے وہ پہلے شخص ہو کہ جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے اورجس نے سب سے پہلے اللہ اور اس کے رسول کی جانب ہجرت کی ،اور رسول خدا کے دنیا سے رخصت کے وقت ملنے والے آخری فرد بھی تم ہی ہو گے۔مجھے اس ذات کی قسم! جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے تم سے فقط وہی محبت کرے گا جو مومن ہوگا اور اس کے دل کا خدا نے ایمان کے واسطے امتحان لے رکھا ہوگا اور تم سے فقط منافق اور کافر ہی بغض رکھے گا۔

شب ہجرت کے بارے میں حضرت علی (ع) کے اشعار:

حضرت علی(ع) نے بستر رسول پر سونے اور رسول خدا(ص) کے غار ثور میں قیام کے بارے میں درج ذیل اشعار میں اشارہ فرمایا ہے :

وقيت بنفسي خير من وطئ الحصى

ومن طاف بالبيت العتيق وبالحجر

رسول إله الخلق إذ مكروا به

فنجّاه ذو الطول الكريم من المكر

وبات رسول الله بالشعب آمناً

وذلك في حفظ الإله وفي ستر

وبت أراعيهم وهم ينبؤنني

وقد صبرت نفسي على القتل والأسر

أردت به نصر الإله تبتلا

وأضمرته حتّى أوسد في قبري

کتاب الفصول المختارة: ص59

اس واقعہ کا تجزیہ :

جو کچھ ہم نے مختصرانداز میں گزشتہ سطور میں لکھا ہے اسے اگر غیر جانبدار ہو کر پڑھا جائے تو ہمیں اس بات کا یقین ہو جائے گا کہ حضرت محمد(ص) مشکل اور عظیم کاموں کی ذمہ داری ہمیشہ اپنے چچازاد بھائی علی ابن ابی طالب (ع) کو ہی سونپتے تھے اور ہر بڑے اور اہم کام کرنے کی اہلیت ولیاقت فقط حضرت علی (ع) میں ہی انہیں نظر آتی تھی اور یہ بات اس چیز پر دلالت کرتی ہے کہ عظیم ترین امورکو سرانجام دینے کے لئے رسول خدا(ص) ہمیشہ حضرت علی(ع) کو ہی اپنا نائب مقرر کرتے تھے شب ہجرت اور دوسرے واقعات اس بات پر شاہد ہیں کہ رسول خدا(ص) کی زندگی میں حضرت علی (ع) ہی ہمیشہ رسول خدا(ص) کے قائم مقام و جانشین رہے اور رسول خدا(ص) نے بارہا اپنی زندگی کے بعد کے لیے بھی حضرت علی(ع) کی خلافت کا اعلان کیا۔

لیکن کیوں اس واقعہ اور رسول خدا(ص) کے مواقف و فرامین سے اس واضح اعتقاد کو اخذ نہیں کیا جاتا؟

کیوں حضرت علی(ع) کے علاوہ دوسرے افراد کے بارے میں ایسی باتیں کی جاتی ہیں کہ جس کی وہ اہلیت نہیں رکھتے اور ان کی منزلت کو بغیر کسی معقول دلیل کے بڑھا چڑھا کر بیان کیا جاتا ہے؟

یہ واقعہ ایک اور پہلوسے رسول خدا(ص) کی طرف سے حضرت علی(ع) کو اپنا جانشین قرار دینے کی طرف اشارہ کرتا ہوابھی نظر آتا ہے اور وہ اس طرح ہے کہ رسول خدا(ص) نے مدینہ ہجرت کرنے سے پہلے حضرت علی(ع) کو مکہ میں اپنے امور کی ادائیگی کے لیے اپنا جانشین بنایا اور انہیں امانتیں واپس کرنے کی ذمہ داری سونپی کیونکہ امین کا لقب حاصل کرنے والے رسول(ص) نے حضرت علی(ع) سے بڑھ کر کسی کو بھی امین نہیں پایاتھا۔

ابن ابی الحدید لکھتے ہیں : قال شيخنا أبو جعفر (المدائني): والمعروف المنقول أنّه(ص) قال لعليٍّ(ع): (إذهب فاضطجع في مضجعي، وتَغَشَّ بِبُرديَ الحضرمي، فإنّ القوم سيفقدونني ولا يشهدون مضجعي، فلعلّهم إذا رأوك يسكنهم ذلك حتّى يُصبحوا، فإذا أصبحتَ فاغد في أداء أمانتي) شرح نهج البلاغة: ج13، ص263.

ہمارے استاد و شیخ ابو جعفر مدائنی کہتے ہیں کہ رسول خدا(ص) نے حضرت علی(ع) سے فرمایا: جا کر میرے بستر پر لیٹ جاؤ اور میری حضرمی چادر کو اوڑھ لو یہ لوگ مجھے عنقریب نہیں پائیں گے اور وہ مجھے بستر پر نہیں دیکھیں گے اور جب وہ تمہیں وہاں دیکھیں گے تو شاید یہ چیز انہیں صبح تک آرام سے بٹھائے رکھے اور جب صبح ہو جائے تو تم میرے پاس رکھی ہوئی امانتوں کو ان کے مالکوں کو لوٹا دینا ۔

ابن ابی الحدید یہ لکھنے کے بعد رقمطراز ہوتے ہیں:محمد بن اسحاق کتاب مغازی میں لکھتے ہیں : (... إن رسول الله(ص) أخبر علياً بخروجه، وأمره أن يبيت على فراشه يخادع المشركين عنه؛ ... وأمره أن يتخلّف بعده بمكّة حتّى يُؤدّيَ عن رسول الله الودايع التي عنده للناس، وكان رسول الله (ص) استودعه رجالٌ من مكّة ودايع له؛ لما يعرفونه من أمانته) شرح نهج البلاغة: ج13، 303

۔۔۔۔۔۔رسول خدا(ص) نے حضرت علی(ع) کو اپنے جانے کے بارے میں بتایا اور مشرکین کے ہتھکنڈوں کو ناکام کرنے کے لئے حضرت علی(ع) کو اپنے بستر پر سونے کا حکم دیا…اور انہیں اپنے بعد مکہ میں اپنی جانشینی پہ مامور کیاتا کہ لوگوں کی جو امانتیں رسول خدا(ص) کے پاس ہیں انہیں نیابتِ رسول میں لوگوں کو واپس کر دیں، مکہ کے لوگ رسول خدا(ص) کے پاس اپنی امانتیں رکھا کرتے تھے کیونکہ وہ لوگ رسول خدا(ص) کی امانتداری کے بارے میں باخوبی جانتے تھے۔

ایک سمجھ بوجھ رکھنے والا مسلمان اس واقعہ سے جو نتائج اخذ کرسکتا ہے ان میں سے ایک واضح چیز یہ بھی ہے کہ رسول خدا(ص) کے نزدیک لوگوں میں سب سے زیادہ قریب اور سب سے زیادہ امانتدار اور قابل بھروسہ شخصیت حضرت علی(ع) کی ہی تھی اور اسی وجہ سے رسول خدا(ص) نے ہر موقع پر حضرت علی (ع) پر اعتماد کیا اور انہیں اپنی زندگی میں اور اپنی وفات کے بعد بھی اپنا خلیفہ قرار دیا اور متعدد بار ان کی جانشینی کا اعلان کیا۔

حضرت علی(ع) ہی سب سے زیادہ علم رکھنے والے اور رسول خدا(ص) کے مدینة العلم کے واحدباب ہیں۔

حضرت علی(ع) ہی سب سے زیادہ متقی اور امام المتقین ہیں۔

حضرت علی(ع) ہی سب سے زیادہ عبادت گزار اور پرہیز گار ہیں ۔

حضرت علی(ع) ہی ہر فضیلت کی طرف سب سے پہلے سبقت لے جانے والے اور ہر عمل خیر کو انجام دینے والے ہیں۔

حضرت علی(ع) ہی اپنے بابا حضرت ابو طالب کے ساتھ مل کر سب سے پہلے رسول خدا(ص) اور رسالت کی مدد و نصرت کرنے والے ہیں ۔

حضرت علی(ع) کی شان میں قرآن مجید کی آیات نازل ہوئیں ۔

ناجانے کتنے ہی ایسے مواقع ہیں کہ جن میں فقط حضرت علی(ع) نے رسول خدا(ص) کی جانشینی کے فرائض سر انجام دیے۔

نا جانے کتنے ہی ایسے مواقع ہیں کہ جہاں پر حضرت علی(ع) نے اسلام کے پرچم کو سر بلند کیا اور مسلمانوں کو عزت بخشی۔

دعوت ذو العشیرہ میں فقط حضرت علی(ع) ہی تھے کہ جنہوں نے رسول خدا(ص) کی ہر پکار پر لبیک کہا اور رسول خدا(ص) نے جتنی دفعہ بھی دعوت ذو العشیرہ میں یہ فرمایا کہ تم میں سے کون ہے کہ جو میری مدد اور جانشینی کے لیے تیار ہے تو اس وقت بھی ہر دفعہ فقط حضرت علی(ع) نے رسول کی مدد و نصرت کا اعلان کیا اور جانشینی کو قبول کیا۔

جنگ خندق میں جب عمرو بن عبدود عامری نے تمام مسلمانوں کو مقابلے کے لیے پکارا تو اس وقت بھی فقط حضرت علی(ع) ہی تھے کہ جو اس کافر کا مقابلہ کرنے کے لیے نکلے اور جب رسول خدا(ص) نے مسلمانوں کو عمرو بن عبدود کے مقابلے کے لئے میدان جنگ میں آنے کے لیے کہا تو سوائے حضرت علی(ع) کے کوئی بھی اس کا مقابلہ کرنے کیلیے تیار نہ ہوا ۔

جنگ تبوک کے لیے جانے سے پہلے رسول خدا(ص) نے فقط حضرت علی(ع) کو مدینہ میں اپنا جانشین بنایا اور اس بات کا اعلان کیا کہ علی ابن ابی طالب (ع) کی میرے نزدیک وہی منزلت ہے کہ جو ہارون کی موسی کے ساتھ تھی۔

حضرت علی(ع) ہی وہ شخصیت ہیں کہ جن کو سورہ برائت کی تبلیغ کے لیے یمن بھیجا گیا اور خدائی حکم کے مطابق دنیا کو یہ بتایا گیا کہ رسول خدا(ص) کے علاوہ اگر کوئی ہستی سورہ برائت اور وحی الہی کی تبلیغ کی صلاحیت و لیاقت رکھتی ہے تو وہ فقط اور فقط علی بن ابی طالب (ع) کی ہی ذات ہے۔

ناجانے کتنے ہی مقاما ت پر رسول خدا(ص) نے حضرت علی(ع) کے فضائل و مناقب کو لوگوں کے سامنے بیان کیا۔

حضرت علی (ع) کے فضائل و مناقب پر مشتمل ناجانے کتنی احادیث کو تاریخ دانوں اور محدثین نے اپنی کتابوں میں لکھا ہے ۔

ناجانے کتنے ہی ایسے فضائل ہیں کہ جو فقط اور فقط حضرت علی (ع) کے ساتھ ہی خاص ہیں اور دنیا کا کوئی دوسرا فرد اس میں شریک نہیں ہے۔

رسول خدا (ص) نے ناجانے کتنی ہی بار حضرت علی(ع) کے فضائل کو بیان کیا اور حضرت علی(ع) کی خلافت بلافصل اور جانشینی کا اعلان کیا…

اتنے فضائل و مناقب بیان کرنے اور بار بار علی(ع) کی خلافت کا اعلان کرنے کے بعد اب رسول خدا (ص) اپنے ناصر و مددگار اور جانشین علی بن ابی طالب کے بارے میں اپنی امت کو اور کیا بتاتے کہ:

لوگ حضرت علی بن ابی طالب کے مقام و مرتبہ کا لحاظ رکھتے!!!

ان کا خلافت بلا فصل کا حق پامال نہ ہوتا!!!!!!

اور وہ محراب عبادت میں حالت سجدہ میں شہید نہ کیے جاتے !!!!!!!!
قارئین کے تبصرے
کوئی تبصرہ نہیں ہے
اپنی رائے دیں
نام:
ملک:
ای میل:
تبصرہ: