عوام کی آواز: اعلی دینی قیادت نے (5 صفر 1433هـ) بمطابق (30 دسمبر 2011ء) کو یہ فرمایا

اعلی دینی قیادت نے بہت موقعوں پر دستور میں بنائے گئے قوانین کے احترام اور ان کی تنفیذ کا کہا لیکن ان کا نفاذ نہ کیا گيا جس کا نتیجہ ان قوانین کی بے حرمتی کی صورت میں نکلا۔

اسی سلسلہ میں اعلی دینی قیادت کے خصوصی نمائندے علامہ شیخ عبد المہدی کربلائی (دام عزہ) کی اُس گفتگو کے چند جملے آپ کی یاداشت کی نظر کرتے ہیں کہ جو انھوں نے (5 صفر 1433هـ) بمطابق (30 دسمبر 2011ء) کو روضہ مبارک امام حسین(ع) میں نماز جمعہ کے خطبہ میں کہے تھے:

وہاں ایک اہم بات ہے جس کا خیال رکھنا واجب ہے اور وہ یہ ہے کہ مجلس النوّاب میں جو قانون بھی بنتا ہے اور مجلس الرئاسة جسے لکھتی اور مانتی ہے اور جو رسمی رسالوں میں نشر ہوتا ہے ضروری ہے کہ وہ قانون نفاذ کا راستہ اختیار کرے، ایسا نہیں ہونا چاہیے جو تینوں ریاستی اداروں کی تنخواہوں میں کمی کے قانون کے ساتھ ہوا ہم دیکھ رہے ہیں کہ اس قانون کے اقرار اور رسمی رسالوں میں شائع ہونے کے باوجود ابھی تک اس کا نفاذ نہیں کیا گیا، حالانکہ بہت بحث و مباحثے اور، عوام اور دینی قیادت کے بار بار مطالبے کے بعد اس قانون کو پاس کیا گیا لیکن جب یہ قانون تنفیذی ادارہ کے پاس آیا تو اس نے اس کا نفاذ کرنے کی بجائے اس میں تبدیلی کا مطالبہ کر دیا!!!!

دینی قیادت پوچھتی ہے کہ ایسا کرنا قانون بنانے کے بعد اس کی بے حرمتی کا سبب نہیں بنے گا؟ !!! یہ کیسے سرکاری ادارے ہیں جن میں قانون کا احترام نہیں ہے؟ جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ نافذ نہ ہونے والے قانون کی بنیاد تو عوام کے مطالبات تھے۔
قارئین کے تبصرے
کوئی تبصرہ نہیں ہے
اپنی رائے دیں
نام:
ملک:
ای میل:
تبصرہ: