اہم ترین خبر: عراق کے موجودہ حالات کے بارے میں اعلی دینی قیادت کا بیان

اعلی دینی قیادت کے خصوصی نمائندے علامہ شیخ عبد المہدی کربلائی (دام عزہ) نے (23 ربيع الثانی 1441هـ) بمطابق (20 دسمبر 2019ء) کو روضہ مبارک امام حسین(ع) میں نماز جمعہ کے اجتماع سے خطاب کے دوران اعلی دینی قیادت کا بیان پڑھتے ہوئے فرمایا:

میرے بھائیو اور بہنو... میں آپ کی خدمت میں آيت الله العظمى سيّد علی حسینی سيستانی (دام ظلّه الوارف) کے نجف اشرف میں قائم دفتر کی طرف سے ہم تک پہنچنے والا بیان پڑھنا چاہتا ہوں کہ جس میں انھوں نے فرمایا ہے:

بسم اللہ الرحمن الرحیم
یہ ملک ابھی تک مشکل اور تشویشناک صورتحال سے گزر رہا ہے، کیونکہ شہریوں کے مختلف گروہ پرامن مظاہروں اور دھرنوں میں مسلسل شریک ہو کر اصلاحات کا مطالبہ کر رہے ہیں جبکہ ان احتجاج میں شامل کچھ افراد کو قتل، اغوا اور دھمکیوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور دوسری جانب بہت سے سرکاری محکموں اور تعلیمی اداروں ضرورت کے بغیر اپنے دروازے بند رکھنے پر مجبور کیا جا ہے، کچھ شہریوں کی املاک کو جلایا گيا ہے اور ان میں توڑ پھوڑ کی گئی ہے، بہت سے لوگ شکوہ کر رہے ہیں کہ ریاستی رٹ کمزور ہو چکی ہے اور کچھ افراد کی جانب سے ملک میں عوامی زندگی کو منظم رکھنے والے قوانین اور قواعد کی کسی روک ٹوک کے بغیر خلاف ورزیوں کا سلسلہ جاری ہے۔
ہم نے سابقہ خطبہ میں اس جانب اشارہ کیا تھا کہ اقتدار کا سرچشمہ عوام ہے اور عوام سے ہی حکومت اپنی قانونی حیثیت کی توثیق حاصل کرتی ہے، (اور اسی بات کا اقرار دستور بھی کرتا ہے) لہذا موجودہ بحران سے نکلنے، حالات کے نامعلوم سمت میں جانے سے روکنے، انتشار اور اندرونی خانہ جنگی سے بچنے کے لیے قریب ترین اور محفوظ ترین راستہ قبل از وقت انتخابات کے ذریعے عوام کی طرف رجوع کرنا ہے، انتخابات کے لیے منصفانہ قانون سازی، آزاد و مستقل الیکشن کمیشن کی تشکیل اور اس کے کام کی ہر مرحلے میں مؤثر نگرانی ہی انتخابی عمل میں عوامی اعتماد کو بحال کر سکتی ہے۔
لیکن دکھائی یہ دے رہا ہے کہ انتخابی قانون کی منظوری میں آج تک رکاوٹیں ڈالی جا رہی ہیں اور اس کے کچھ بنیادی مضامین پر تنازعہ بڑھ گیا ہے۔ ہم ایک بار پھر زور دیتے ہیں کہ انتخابات کے لیے قانون سازی میں جلدی کی جائے، اور انتخابی قانون ایسا ہو جو ووٹروں کی امنگوں کے مطابق ہو، انھیں اپنے نمائندوں کے قریب لائے، ان کے ووٹوں کو احترام دے اور ووٹوں کے التفاف کی اجازت نہ دے۔ انتخابی قانون میں اگر یہ صفات نہ ہوئی تو وہ موجودہ بحران سے کبھی بھی نہیں نکال سکے گا۔
اگر انتخابات کے لیے قابل قبول قانون سازی ہو جاتی ہے تو اس وقت سیاست میں دلچسبی رکھنے والے ملکی دانشور اور با صلاحیت طبقے کا کردار شروع ہو گا تاکہ وہ اپنی صفوں کو منظم کریں اور ملک کو ترقی دینے اور ملک کے بڑھتے ہوئے مسائل کو مطالعہ شدہ قابل عمل منصوبوں کے ذریعے حل کرنے کے لیے اپنے پروگرام تیار کریں، تاکہ وہ انتخابات کے وقت انہیں رائے دہندگان کے سامنے پیش کر سکیں اور علاقائی، قبائلی اور مذہبی وابستگی کی بنیاد پر امیدواروں میں مقابلہ نہ ہو، بلکہ مقابلہ ان کی اہلیت اور ان کے پاس موجود ملک کو بہتر مستقبل کی طرف گامزن کرنے کے قابل عمل پروگراموں کے حوالے سے ہو۔ امید ہے کہ آئندہ آنے والی پارلیمنٹ اور اس سے بننے والی حکومت ضروری اصلاحات کرنے، اور گزشتہ ادوار میں ہونے والی بدعنوانی، بندر بانٹ اور معاشرتی انصاف کی عدم موجودگی کے اثرات سے نجات کے لئے مطلوبہ کردار ادا کرے گی۔
آخر میں ہم امید کرتے ہیں کہ نئی حکومت کی تشکیل میں دیر نہیں ہو گی، کہ جو لازمی طور پر ایک غیر جدلی حکومت ہو گی، موجودہ مرحلے کی ضروریات و توقعات کو پورا کرے گی، ریاستی وقار اور پرسکون حالات کی بحالی کے قابل ہو گی، اور غیر قانونی پیسے یا ہتھیاروں کے اثرات اور بیرونی مداخلت سے دوررہتے ہوئے آئندہ انتخابات کو پرامن حالات میں کرائے گی.... بیشک خدا ہی کامیابی عطا فرماتا ہے۔
قارئین کے تبصرے
کوئی تبصرہ نہیں ہے
اپنی رائے دیں
نام:
ملک:
ای میل:
تبصرہ: