عراق کے موجودہ حالات کے بارے میں اعلی دینی قیادت کا اہم بیان

اعلی دینی قیادت آیت اللہ العظمی سید علی حسینی سیستانی (دام ظلہ) کے خصوصی نمائندے علامہ سید احمد صافی (دام عزہ) نے (14 جمادى الأول 1441هـ) بمطابق (10 جنوری 2020ء) کو روضہ مبارک امام حسین (علیہ السلام) میں نماز جمعہ کی امامت کے فرائض سرانجام دیئے اور نماز جمعہ کے دوسرے خطبہ میں کہا: میرے بھائیو اور بہنو... میں آپ کی خدمت میں اعلی دینی قیادت کے نجف اشرف میں قائم دفتر کی طرف سے ہم تک پہنچنے والا بیان پڑھنا چاہتا ہوں کہ جس میں انھوں نے فرمایا ہے:

بسم الله الرحمن الرحيم

آزمائشوں اور مشکلات کے ان اوقات میں تعاون اور یکجہتی کی اشد ضرورت ہے، اور یہ صرف ایسی صورت میں ہو سکتا ہے جب تمام فریق اپنے ہر قسم کے ذاتی مفادات سے دستبردار ہو کر عوامی مفادات کو ترجیح دیں۔

مختلف فریقوں کی طرف سے اپنی طاقت، اثر و رسوخ اور صلاحیتوں کے ذریعے تسلط و غلبے کے لیے کام کرنا اور ہر ایک کا دوسروں پر اپنی رائے مسلط کرنے کی کوشش کرنا بحران کے باقی رہنے اور اس کے حل کو مزید مشکل بنانے کا باعث بنے گا، اور جس کے نتیجے میں بالآخر سب نقصان اٹھائيں گے اور سب سے زیادہ نقصان ملک اور عام لوگوں کا ہو گا کہ جن کا موجودہ داخلی اور بیرونی تنازعات سے کوئی لینا دینا نہیں ہے ان کا تعلق اور ان کی خواہش صرف اس حد تک ہے ان کے ملک میں امن و سلامتی، استحکام رہے، اس کی آزادی اور خودمختاری کے محفوظ رہے، اور ان کے اور ان کے بچوں کے لئے آزاد اور باوقار زندگی میسر رہے۔

گزشتہ دنوں میں عراقی خودمختاری پر سنگین حملے اور بار بار ہونے والی خلاف ورزیاں، اور ملک اور اس کے عوام کی حفاظت میں متعلقہ حکام کی واضح کمزوری، موجودہ بحران کے نتائج کا ایک حصہ ہے۔ ہر ایک کو چاہیے کہ وہ حالات کے حوالے سے اپنی ذمہ داری کے بارے میں خوب غور وفکر کرے، بعض مواقف پر اصرار اور بعض کے حوالے سے مسلسل انکار کے سبب خراب ہوتے حالات کا سد باب نہیں ہو سکے گا اور اگر بگڑتی صورتحال کو کنٹرول نہ کیا گيا تو اس کے نتیجہ میں مختلف سیکیورٹی، سیاسی، معاشی اور معاشرتی پہلوؤں سے دشواریاں بڑھ جائيں گی اور دوسروں کو ملک کے امور میں مزید مداخلت کرنے اور اپنے اہداف کو حاصل کرنے کے مزید مواقع ملتے رہیں گے۔

مختلف محاذوں اور میدانوں میں اس ملک کے عوام کی طرف سے عظیم تر قربانیوں کے بعد اگر موجودہ بحران کا خاتمہ مطلوب ہے تو جس طریقہ کار کے بارے میں بارہا گفتگو ہو چکی ہے اس کے مطابق اصلاح کے مطالبات کو پورا کرنے کے ذریعے ہر ایک کا قومی ذمہ داری کا احساس اور موجودہ بحران کے حل کے لیے اپنے احساس کا مؤثر اظہار ہی اس بحران سے نکلنے کا ایک صحیح راستہ بنا سکتا ہے۔

گزشتہ (بعثی) نظام اور حتی موجودہ نظام کے سائے تلے کئی دہائیوں سے عوام مختلف سطحوں پر جن جنگوں، آزمائشوں اور پریشانیوں کو سامنا کر چکے ہیں ان کا اب خاتمہ ہو جانا چاہیے، لہذا متعلقہ فریقوں کو قومی ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے، اور عوام کے ایسے مستقبل کے لئے جامع ویژن تک پہنچنے کا موقع ضائع نہیں کرنا چاہیے، کہ جس مستقبل کا خواب والدین نے دیکھا تھا لیکن وہ خواب آج تک ان کے بچوں کے لیے بھی پورا نہیں ہو سکا، اور وہ خواب ایک خود مختار عراق کا تھا جس کی حکومت اس وطن کے بچوں کے ہاتھوں میں ہو گی اور اس کے فیصلوں میں اجنبیوں کا کوئی کردار نہیں ہو گا، اور عوام کا فیصلہ اس کی حکومت کی بنیاد ہو گی، اور وہ حکومت روشن خیال حکومت ہو گی، اور وہ مختلف ادیان اور اقوام سے تعلق رکھنے والی اس وطن کی عوام کی خدمت کرے گی، اور انھیں عزت و امان کے ماحول میں باوقار زندگی فراہم کرے گی، یہ ملک جن روشن عقول اور بے شمار وسائل کا مالک ہے ان کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا یہ بہت زیادہ ہے؟؟؟

ہم اللہ تعالٰی سے دعا گو ہیں کہ وہ سب کی حفاظت کرے اور انھیں اس راہ پر گامزن ہونے کی توفیق عطا کرے، بیشک وہ سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔
قارئین کے تبصرے
کوئی تبصرہ نہیں ہے
اپنی رائے دیں
نام:
ملک:
ای میل:
تبصرہ: